Itny tu wo bhi khafa nahi thy

Itny tu wo bhi khafa nahi thy

 

اتنے بھی تو وہ خفا نہیں تھے

 

جیسے کبھی آشنا نہیں تھے

 

مانا کہ ہم کہاں تھے ایسے

 

پر یوں بھی جدا جدا نہیں تھے

 

تھی جتنی بساط،کی پرستش

 

تم بھی تو کوئی خدا نہیں تھے

 

حد ہوتی ہے طنز کی بھی آخر

 

ہم ترے نہیں تھے، جا نہیں تھے

 

کس کس سے نباہتے رفاقت

 

ہم لوگ کہ بے وفا نہیں تھے

 

رخصت ہوا، وہ تو میں نے دیکھا

 

پھول اتنے بھی خوشنما نہیں تھے

 

تھے یوں تو ہم اس کی انجمن میں

 

کوئی ہمیں دیکھتا، نہیں تھے

 

جب اس کو تھا مان خود پہ کیا کیا

 

تب ہم بھی فرازؔ کیا نہیں تھے

 

احمد فرازؔ

خود سے روٹھوں تو کئی روز نہ خود سے بولوں

خود سے روٹھوں تو کئی روز نہ خود سے بولوں
پھر کسی درد کی دیوار سے لگ کر رو لوں

تو سمندر ہے تو پھر اپنی سخاوت بھی دکھا
کیا ضروری ہے کہ میں پیاس کا دامن کھولوں

میں کہ اک صبر کا صحرا نظر آتا ہوں تجھے
تُو جو چاہے تو ترے واسطے دریا رو لوں

اور معیار رفاقت کے ہیں ایسا بھی نہیں
جو محبت سے ملے ساتھ اسی کے ہولوں

خود کو عمروں سے مقفل کئے بیٹھا ہوں فراز

وہ کبھی آئے تو خلوت کدۂ جاں کھولوں

اِس کا سوچا بھی نہ تھا اب کے جو تنہا گزری

اِس کا سوچا بھی نہ تھا اب کے جو تنہا گزری
وہ قیامت ہی غنیمت تھی جو یکجا گزری
آ گلے تجھ کو لگا لوں میرے پیارے دشمن
اک مری بات نہیں تجھ پہ بھی کیا کیا گزری
میں تو صحرا کی تپش، تشنہ لبی بھول گیا
جو مرے ہم نفسوں پر لب ِدریا گزری
آج کیا دیکھ کے بھر آئی ہیں تیری آنکھیں
ہم پہ اے دوست یہ ساعت تو ہمیشہ گزری
میری تنہا سفری میرا مقدر تھی فراز
ورنہ اس شہر ِتمنا سے تو دنیا گزری

نظر کی دھوپ میں سائے گھلے ہیں شب کی طرح

نظر کی دھوپ میں سائے گھلے ہیں شب کی طرح

میں کب اداس نہیں تھا مگر نہ اب کی طرح

 

پھر آج شہرِ تمنا کی رہگزاروں سے

گز ر رہے ہیں کئی لوگ روز و شب کی طرح

 

تجھے تو میں نے بڑی آرزو سے چاہا تھا

یہ کیا کہ چھوڑ چلا تو بھی اور سب کی طرح ؟

 

فسردگی ہے مگر وجہِ غم نہیں معلوم

کہ دل پہ بھی بوجھ سا ہے رنجِ بے سبب کی طرح

 

کِھلے تو اب کے بھی گلشن میں پھول ہیں لیکن

نہ میرے زخم کی صورت نہ تیرے لب کی طرح

 

احمد فراز

اپنا حصہ شمار کرتا تھا

اپنا حصہ شمار کرتا تھا
مجھ سے اتنا وہ پیار کرتا تھا

وہ بناتا تھا میری تصویریں
ان سے باتیں ہزار کرتا تھا

میرا دکھ بھی خلوص نیت سے
اپنا دکھ ہی شمار کرتا تھا


سچ سمجھتا تھا جھوٹ بھی میرا
یوں میرا اعتبار کرتا تھا


پہلے رکھتا تھا پھول رستے میں
پھر میرا انتظار کرتا تھا


آج پہلو میں وہ نہیں فراز
جو مجھ پہ جان نثار کرتا تھا

دوست بھی ملتے ہیں محفل بھی جمی رہتی ہے

دوست بھی ملتے ہیں محفل بھی جمی رہتی ہے

تو نہیں ہوتا تو ہر شے میں کمی رہتی ہے

اب کے جانے کا نہیں موسمِ گر یہ شاید

مسکرائیں بھی تو آنکھوں میں نمی رہتی ہے

عشق عمروں کی مسافت ہے کسے کیا معلوم؟

کب تلک ہم سفری ہم قدمی رہتی ہے

کچھ جزیروں میں کبھی کھلتے نہیں چاہت کے گلاب

کچھ جزیروں پہ سدا دھند جمی رہتی ہے

تم بھی پاگل ہو کہ اُس شخص پہ مرتے ہو فراز

ایک دنیا کی نظر جس پہ جمی رہتی ہے

احمد فراز

وہ دشمنِ جاں، جان سے پیارا بھی کبھی تھا

وہ دشمنِ جاں، جان سے پیارا بھی کبھی تھا
اب کس سے کہیں کوئی ہمارا بھی کبھی تھا

 اترا ہے رگ و پے میں تو دل کٹ سا گیا ہے
یہ زہرِ جدائی کہ گوارا بھی کبھی تھا

ہر دوست جہاں ابرِ گریزاں کی طرح ہے
یہ شہر کبھی شہر ہمارا بھی کبھی تھا

تتلی کے تعاقب میں کوئی پھول سا بچہ
ایسا ہی کوئی خواب ہمارا بھی کبھی تھا

اب اگلے زمانے کے ملیں لوگ تو پوچھیں
جو حال ہمارا ہے تمہارا بھی کبھی تھا

ہر بزم میں ہم نے اسے افسردہ ہی دیکھا
کہتے ہیں فرازؔ انجمن آرا بھی کبھی تھا

احمد فرازؔ

اور بھی دکھ تھے

مجھے تیرے درد کے علاوہ بھی.

اور بھی دکھ تھے یہ مانتا ہوں.

ہزار غم تھے جو زندگی کی .

تلاش میں تھے یہ جانتا ہوں .

مجھے خبر تھی کہ تیرے آنچل میں.

درد کی ریت چھانتا ہوں .

مگر ہر اک بار تجھ کو چھو کر.

یہ ریت رنگ حنا بنی ہے.

یہ زخم گلزار بن گئے ہیں .

یہ آہ سوزاں گھٹا بنی ہے.

یہ درد موج صبا ہوا ہے .

یہ آگ دل کی سادہ بنی ہے .

اور اب یہ سری متاع ہستی .

یہ پھول یہ زخم سب تیرے ہیں

یہ دکھ کے نوحے ،یہ سنک کے نغمے .

جو کل مرے تھے اب وو تیرے ہیں .

جو تیری قربت تیری جدائی .

میں کٹ گئے روز و شب کی طرح ہیں .

وہ تیرا شاعر تیرا مغنی .

وو جس کی باتیں عجب سی تھیں .

وہ جس کے انداز خسروانہ تھے .

اور ادیں غریب سی تھیں.

وہ جس کی جینے کی خواہشیں بھی .

خود اس کے نصیب سے تھیں.

نہ پوچھ اس کا کہ وہ دیوانہ .

بہت دنوں کا اجڑ چکا ہے.

وہ کوہکن تو نہیں تھا لیکن.

کڑی چٹانوں سے لڑ چکا ہے .

وہ تھک چکا تھا اور اس کا تیشہ .

اس کے سینے میں گر چکا ہے .

 

احمد فراز

تمام عمر اسی کے رہے یہ کیا کم ہے

تمام عمر اسی کے رہے یہ کیا کم ہے
بلا سے عشق حقیقی نہ تھا مجازی تھا
نہ دوست یار، نہ ناصح، نہ نامہ بر، نہ رقیب
بلا کشان ِمحبّت سے کون راضی تھا
یہ گل شدہ سی جو شمعیں دکھائی دیتی ہیں
ہنر ان آنکھوں کا آگے ستارہ سازی تھا

احمد فراز

جب تیرا درد میرے ساتھ وفا کرتا ہے

  

جب تیرا درد میرے ساتھ وفا کرتا ہے
ایک سمندر میری آنکھوں سے بہا کرتا ہے
 
اس کی باتیں مجھے خوشبو کی طرح لگتی ہیں
پھول جیسے کوئی صحرا میں کھلا کرتا ہے
 
میرے دوست کی پہچان یہی کافی ہے
وہ ہر شخص کو دانستہ خفا کرتا ہے
اور تو سبب اس کی محبت کا نہیں
بات اتنی ہے وہ مجھ سے جفا کرتا ہے 
 
جب خزاں آئی تو لوٹ آئے گا وہ بھی فراز 
 وہ بہاروں میں ذرا کم ہی ملا کرتا ہے

ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺳﮯ ﯾﮩﯽ ﮔﻠﮧ ﮨﮯ ﻣﺠﮭﮯ

زندگی سے یہی گلہ ہے مجھے
توبہت دیرسے ملا ہے مجھے
 
تو محبت سے کوئی چال تو چل
ہار جانے کا حوصلہ ہے مجھے
 
دل دھڑکتا نہیں ٹپکتا ہے
کل جو خواہش تھی آبلہ ہے مجھے
 
ہم سفر چاہیئے ہجوم نہیں
اِک مسافر بھی قافلہ ہے مجھے
 
کوہ کن ہو کہ قیس ہو کہ فراز
سب میں اِک شخص ہی ملا ہے مجھے

سراپا عشق ہوں میں اب بکھر جاؤں تو بہتر ہے

عشق 
سراپا عشق ہوں میں اب بکھر جاؤں تو بہتر ہے
 جدھر جاتے ہیں یہ بادل ادھر جاؤں تو بہتر ہے
 ٹھہر جاؤں یہ دل کہتا ہے تیرے شہر میں کچھ دن 
مگر حالات کہتے ہیں کہ گھر جاؤں تو بہتر ہے
 دلوں میں فرق آئیں گے تعلق ٹوٹ جائیں گے
 جو دیکھا جو سنا اس سے مکر جاؤں تو بہتر ہے
 یہاں ہے کون میرا جو مجھے سمجھے گا فراز
 میں کوشش کر کے اب خود ہی سنور جاؤں تو بہتر ہے

Ye Muhabbat Bhi Kya Roag Hai Faraz

Ye Muhabbat Bhi Kya Roag Hai Faraz

Jisko Bholen Wo Sda Yaad Aaey

 یہ محبت بھی کیا روگ ہے فراز
جسکو بھولیں وہ سدا یاد آئے

برسوں کے بعد ديکھا اک شخص دلرُبا سا

برسوں کے بعد ديکھا اک شخص دلرُبا سا
اب ذہن ميں نہيں ہے پر نام تھا بھلا سا
ابرو کھنچے کھنچے سے آنکھيں جھکی جھکی سی
باتيں رکی رکی سی لہجہ تھکا تھکا سا
الفاظ تھے کہ جگنو آواز کے سفر ميں تھے
بن جائے جنگلوں ميں جس طرح راستہ سا
خوابوں ميں خواب اُسکے يادوں ميں ياد اُسکی
نيندوں ميں گھل گيا ہو جيسے رَتجگا سا
پہلے بھی لوگ آئے کتنے ہی زندگی ميں
وہ ہر طرح سے ليکن اوروں سے تھا جدا سا
اگلی محبتوں نے وہ نا مرادياں ديں
تازہ رفاقتوں سے دل تھا ڈرا ڈرا سا
کچھ يہ کہ مدتوں سے ہم بھی نہيں تھے روئے
کچھ زہر ميں بُجھا تھا احباب کا دلاسا
پھر يوں ہوا کے ساون آنکھوں ميں آ بسے تھے
پھر يوں ہوا کہ جيسے دل بھی تھا آبلہ سا
اب سچ کہيں تو يارو ہم کو خبر نہيں تھی
بن جائے گا قيامت اک واقعہ  ذرا سا
تيور تھے بے رُخی کے انداز دوستی کے
وہ اجنبی تھا ليکن لگتا تھا آشنا سا
ہم دشت تھے کہ دريا ہم زہر تھے کہ امرت
ناحق تھا زعم ہم کو جب وہ نہيں تھا پياسا
ہم نے بھی اُس کو ديکھا کل شام اتفاقا
اپنا بھی حال ہے اب لوگو فراز کا سا

Is se pehle ke bewafa ho jaeyn

Is se pehle ke bewafa ho jaeyn

Kyon na aiy dost hum juda ha jayin

Tu bhi heeray se ban gaya pathar

Hum bhi kal jane kya se kya ho jayin

Tu k yakta tha beshumar howa

Hum bhi tootain to jabaja ho jayin

Hum bhi majboriyoon ka uzer karin

Phir kahin or mubtala ho jayin

Hum agar manzilein na ban payin

Manzilon tak ka rasta ho jayin

Dair se sooch main hain parwane

Raakh ho jayin, hawa ho jayin

Ishq bhi khel hai naseebon ka

Khak ho jayin, chemia ho jayin

ab k agar tu mile to hum tujh se

aise liptin teri quba ho jayin

bandagi hum ne chor di hai FARAZ

kya karien log jab khuda ho jayin

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top